قازق صدر نے آستانہ کو شمالی کوریا کے ساتھ ترک اسلحہ پر مذاکرات کے مقام کے طور پر پیش کیا
از سانتو ڈی بنرجی
اقوام متحدہ ( آئی ڈی این) – اقوام متحدہ کے ذریعہ جوہری طاقت کے حاملین اور غیر حاملین کو یکم جولائی 1968 کوجوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ ( این پی ٹی) پر دستخط کرنے کے لیے دی گئی دعوت کی پچاسویں سالگرہ کی آمد کے موقع پر، قازقستان نے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے مقصد سے چھ اقدامات پر مشتمل ایک لائحہ عمل کی تجویز پیش کی ہے اور شمالی کوریا کے ساتھ ترک اسلحہ پر مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم کی پیشکش کی ہے۔
اس پہل کا آغاز 18 جنوری کو منعقدہ سلامتی کاؤنسل کی اعلیٰ سطحی بریفنگ کے موقع پر کیا گیا، جس میں بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ: اعتماد سازی کے اقداماتپر توجہ مرکوز کی گئی۔ کاؤنسل کے صدر برائے جنوری کی حیثیت سے قازقستان نے یہ تقریب منعقد کی۔ اورایک ایسے وقت اس کا آغاز کیا گیا، جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹانیو گیٹرس نے کہا کہ ” سرد جنگ کے بعد جوہری ہتھیاروں کے تعلق سے عالمی تشویش میں انتہائی اضافہ ہوا ہے۔”
سلامتی کاؤنسل سے خطاب کرتے ہوئےقازق صدر نور سلطان نظربائیو نے کہا کہ اعتماد سازی کے اقدامات نے تاریخ میں اپنی کارکاردگی ثابت کی ہے۔ مثال کے طور پر، ان اقدامات کے نتیجہ میں، بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں بڑے پیمانے پر تباہی کے تدارک میں اس وقت مدد ملی، جب انسانیت ایک نئے بڑے پیمانے کی جنگ کے دہانے پرکھڑی تھی ۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے عہد و پیمان کے حوالہ سے کہا کہ “نئی نسل کو جنگ کے تازیانہ سے بچانا ہمارا ایک مشترکہ مقصد ہے”، انہوں نے مزید بتایا کہ قازقستان نے رضا کارانہ جوہری ترک اسلحہ کے ساتھ اپنی وابستگی کو ثابت کیا ہے، جس کی پوری دنیا نے بے انتہا ستائش کی ہے۔”
موجودہ طور پر، معدوم سوویت یونین کے ایک حصّہ کے طور پر، قازقستان کی سر زمین پر سوویت کے 1,410 اہم جوہری دفاعی میزائل بٹھائے گئے تھے اور اس کی علاقہ میں ایک نامعلوم تعداد میں تدبیری جوہری ہتھیار موجود تھے۔ سوویت یونین کے دو سب سے بڑے جوہری ٹیسٹ کے مقامات میں سے ایک مقام سیمیپلانٹیسک میں واقع تھا، جہاں پر 460 جوہری جانچیں انجام دی گیی تھی۔ قازقستان نے اپنے سوویت دور کے تمام جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری اختیار کی تھی۔
نظر بائیو نے کہا کہ اس وسطی ایشیائی جمہوریہ نے قازقستان میں آئی اے ای اے بینک آف لو اینریچڈ یورینیئم میں بین الاقوامی باہمی تعاون کا ایک نیا مثالی نمونہ قائم کیا تھا، اور اس طرح عدم پھیلاؤ کے نظام کو استحکام فراہم کیا تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک ( قازقستان) نے اپنی آزادی حاصل کرنے کے بعد اسے مستحکم کیا تھا اور اس کے بعد عدم جارحیت کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے اور تخفیفی جوہری ہتھیار کے ذریعہ اپنی عالمی پہچان بنائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ قازقستان کا جوہری ترک اسلحہ کا تجربہ اس میں شامل ہونے والوں کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ نظر بائیو نے آگے کہا کہ “ہم شمالی کوریا کو اس راستے پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔”
شمالی کوریا، جو کہ بہتر طور پر ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا، کے طور پر معروف ہے، اس نے 10 جنوری 2003 کو این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ) سے اپنے باہر نکلنے کا اعلان کیا تھا، اور اس کے فوری بعد اور اس وقت سے اب تک : سال 2006، 2009، 2013 ، 2016 میں دو بار اور 2017 میں ایک اسطرح جملہ چھ جوہری ٹسٹ انجام دئے ہیں۔
اس پس منظر کے باوجود بھی قازق صدر نےان چھ اقدامات کی تجویز کی ہے:
پہلا قدام: این ٹی پی سے باہر نکلنے کو مزید پیچیدہ بنایا جائے، تاکہ شمالی کوریا کی مثال دیگر ممالک کو بھی جوہری ہتھیاروں کی ملکیت رکھنے کی ترغیب نہ دے سکے۔ “میں، این ٹی پی پر سوال اٹھائے بغیر، [ اقوام متحدہ کی سلامتی ] کاؤنسل کی ایک خصوصی تجویز کی مسودہ سازی کی تجویز پیش کرتا ہوں، جو این ٹی پی (جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدہ) کی خلاف ورزیوں کے مرتکبین کے لئے عواقب بشمول پابندیوں اور نفاذ کے اقدامات کی تعریف کرے۔” یہ بات نظر بائیو نے کہی جو 15 ممالک پر مشتمل کاؤنسل ، جس کا قازقستان ایک رکن دوسالہ معیاد 2017-2018 کے لیے دس غیر مستقل اراکین میں سےایک رکن ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک وسطی ایشیائی ملک سلامتی کاؤنسل کا رکن بنا ہو اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک وسط ایشیائی ملک بین الاقوامی امن و سلامتی کی بنیادی ذمہ داری والے اقوام متحدہ کے ایک اہم عضو سلامتی کاؤنسل کے صدر نشین کی ذمہ داری اپنائی ہو۔
دوسرے اقدام کے طور پر، قازق صدر نے اس بات کی تجویز پیش کی کہ ایک کارکرد اقدام کے طور پر بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کے اکتساب اور پھیلاؤ پر سخت تر اقدامات لاگو کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کو ایک علیحدہ کاؤنسل کی تجاویز کے ذریعہ مضبوط بنایا جائے۔ اس کے علاوہ، رضا کارانہ طور پر جوہری ہتھیاروں سے دست برداری اختیار کرنے والے ممالک کو جوہری ممالک کی طرف سے مضبوط ضمانت ملنی چاہیے۔
تیسرا اقدام، عالمی سلامتی کے نظام کی تازہ کاری میں ہماری کامیابی یا ناکامی فوجی غلط زمانی پر قابو پانے کے تعلق سے ہماری صلاحیت پر منحصر ہے: ہمیں چاہیے کہ ہم فوجی بلاک میں تقسیم ہونا چھوڑدیں جو کہ اشتعال انگیز اور ساتھ ہی ساتھ بے معنی بھی ہے۔” نظر بائیو نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ باہمی اعتماد کو قائم کرنے کے لیے ایک آخری تاریخ متعین کریں اور اقوام متحدہ کی 100ویں تقریب سے پہلے تک جوہری تخفیف اسلحہ انجام دیں۔
ناظر بائیو نے اپنی اس تجویز کو اپنے منشور ” دی ورلڈ دی ٹیونٹی فرسٹ سنچیوری” بتاریخ 31 مارچ 2016 میں پیش کیا ہے ۔
چوتھا اقدام، صدر نے ایک سیاسی ٹرسٹ کی تشکیل اور بین الاقوامی معاملات پر ایک منظم مذاکرات انجام دیے جانے کی ضرورت پر زور دیا جائے، اپنے خطاب میں انہوں نے ایران کے جوہری معاملہ کی اثر انگیزی پر زور لگاتے ہوئے اس بات کی اُمید ظاہر کی ہے کہ مشترکہ جامع منصوبہ برائے کارروائی ( جے سی پی او اے) کے طور پر معروف لائحہ عمل اپنی مشکلات پر قابو پانے اور اسے سالم رکھنے میں کامیاب ہوگا۔ نظر بائیو نے شمالی کوریائی کے مسئلہ سے نمٹنے کے لیے بھی ایک ایسے مماثل طریقہ کار کو اپنانے کی تجویز پیش کی۔
ہم ‘پیونیانگ کو بات چیت کی میز پر واپس لانے، پُراعتماد ماحول کی تخلیق کے لیے ایک اہم شرط کے طور پر، دی نیوکلیئر فائی’ (پانچ جوہری ممالک) کے ذریعہ سلامتی کی ضمانت دیے جانے کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قازقستان ضرورت پڑنے پر مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، انہوں نے کاؤنسل کے شرکا کو اس بات کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ قازقستان نے شام میں تشدد کے خاتمہ کے مقصد سے کامیابی کے ساتھ مذاکرات کی میزبانی کی تھی اور یہ کہ آستانہ مشاورت کے ساتویں دور کے نتیجہ میں وہاں پر تشدد میں قابل ذکر حد تک کمی واقع ہوئی تھی۔
پانچواں اقدام، وسطی ایشیائی ممالک کے علاقہ میں جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ کے قیام کے تجربہ کی بنیاد پر، نظر بائیو نے مشرق وسطی میں جوہری، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے پاک علاقہ کے قیام کے لیے آواز دی- اس قسم کے علاقہ کو ایک ایسے فیصلوں کے پیکیج کا ایک حصّہ تصور کیا گیا تھا، جس کے نتیجہ میں این پی ٹی (جوہری عدم پھیلاؤ) ، یعنی این پی ٹی 1995 والی جائزہ کانفرنس کی غیر محدود توسیع واقع ہوئی تھی۔
چھٹا اقدام، قازق صدر نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ جدید سائنسی کامیابیوں سے مدد حاصل کریں اور ہتھیاروں کی دوڑ پر قابو کو مستحکم کریں۔ “میرا خیال ہے کہ مشترکہ طریقہ کار کو اپنانے کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات بھی ضروری ہیں تاکہ اوپری خلا کو فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنانے سے روکا جا سکے، انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئےمزید کہا کہ یہ مباحثہ کے ایک علیحدہ ہ دور کا ایک موضوع ہو سکتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تاہم، یہ پیش رفتیں اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا عدم پھیلاؤ، جوہری طاقتوں اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے دیگر تمام ممالک کے درمیان باہمی افہام وتفہیم اور اعتماد پر منحصر ہے۔
عالمی برادری ایک واحد جسم ہے، جو کہ اپنے تنوع اور تکثیریت کے لحاظ سے مضبوط ہے جو اس کرہ ارض پر رہنے والے لوگوں کے درمیان توازن اور ہم آہنگی ہونے کی صورت باقی رہ سکتا ہے، اور جدوجہد کر سکتا ہے۔
انہوں نے اپنا خطاب ختم کرتے ہوئے پُر امن بقائے باہمی کی سمت کے انتخاب میں اعتماد، قوت ارادی اور انسانی چالاکی کے ساتھ اجتماعی کارروائی کی توانائی پر اپنی اُمیدیں ظاہر کی۔ [آئی ڈی این- اِنڈپت نیوز– 19 جنوری 2018]