ناگاساکی کانفرنس میں جوہری اسلحہ سے پاک دنیا بنانے کے لیے ایک یوتھ مہم
از کاٹسوہیرو اساگیری
ناگا ساکی ( آئی ڈی این) – یوتھ کامیونیکیٹرز نامی ایک فورم نے، جسے جاپانی وزیر خارجہ فیومیڈو کیشیڈا نے2013 میں قائم کیا گیا تھا، لوگوں سے اس بات کا پُر زور مطالبہ کیا ہے کہ وہ یہ بات سمجھ لیں کہ جوہری ہتھیاروں سے نہ صرف بڑی مقدار میں رقم خرچ ہوتی ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی امن اور سلامتی، عالمی ماحول اور انسانی بقا کے لیے ایک بہت ہی شدید خطرہ کا باعث ہے۔
یوتھ کامیونیکیٹرز کی نشست جاپان کے ناگاساکی شہر میں منعقد ہوئی، جو اکہتر سال قبل ہیروشیما کے ساتھ جوہری بمباری کے نتیجہ میں شدید طور پر متأثر ہوا تھا۔ انہوں نے اسلحہ سے پاک دنیا کی طرف منتقلی کی طرف بڑھتی ہوئی ضرورت کے بارے میں مواصلت کرنے کا عہد کیا اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے سلسلہ وار اقدامات تجویزکیے ہیں۔
‘‘ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان جوہری ہتھیاروں کے ساتھ آپس میں پُرامن طور پر نہیں رہ سکتے، کیونکہ یہ لوگوں، شہروں اور ماحول کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ‘ہیباکوشا’کو، جو ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جوہری بمباری کے بعد زندہ بچ تو گیے، لیکن اس کے بعد والے تابکاری کے اثرات کی وجہ سے جسمانی طور پر اور تفریق و امتیاز کی وجہ سے دماغی طور پر متاثر ہوئے ہیں، چاہیے کہ وہ جوہری ہتھیار رکھنے سے پوری دنیا کو لاحق خطرہ کے ایک انتباہ کے اظہار کے طور پر دنیا سامنے آئیں’’، یہ بات یوتھ کاموینیکیٹرز کے اعلامیہ میں کہی گئی ہے۔
اس اعلامیہ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ‘‘جاپان کو چاہیے کہ وہ جوہری بمباری کا شکار ہونے والے ایک واحد ملک کے طور پر ‘جوہری چھتری’ (‘nuclear umbrella’) کو رد کرے اور بین الاقوامی کمیونٹی کو جوہری ہتھیاروں کے خوفناک بے رحمانہ اثرات کے تعلق سے ایک سخت پیغام بھیجے، اور جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے لیے قانونی طور پر واجب التعمیل معاہدہ کے لیے مذاکرات میں پہل کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کرے۔’’
یہ میٹنگ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں منعقد ہوئی جس میں دو تقریبات شامل تھیں : 11 دسمبر کو جوہری ہتھیاروںسے پاک دنیا کے لیے یوتھ کامیونیکیٹرز کا ایک فورم اور دسمبر 12 سے 14 تک ترکتخفیف اسلحہ پر اقوام متحدہ کی 26 ویں کانفرنس۔
اعلامیہ میں آگے کہا گیا ہے کہ ‘‘ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیار کے مسائل ایک چوراہے پر ہیں۔ امسال، جی 7 وزرائے داخلہ کی ایک نشست ہیروشیما میں منعقد ہوئی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر اوباما نے ہیروشیما پیس میموریئل پارک کا دورہ کیا، جہاں پر انہوں نے ایک تاریخی خطبہ پیش کیا۔ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ‘‘اگلے سال، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کی منظوری کے بعد، جوہری ہتھیاروں کے امتناع کے لیے ایک قانونی طور پر واجب التعمیل معاہدہ کا آغاز ہوگا۔’’
جاپانی وزیر خارجہ نے کیشیڈا نے اس فورم کا آغاز ایک ایسے وقت میں جبکہ جوہری بمباری کے پسماندگان (ہباکوشا) کی عمر بڑھتی جا رہی ہے، ایٹمی بمباری کی حقیقتوں کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کے مقصد سے کیا تھا۔ اس کے آغاز کے بعد سے 174 نوجوانوں نے ایک یوتھ کامیونیکیٹرز کے طور پر اس ادارہ کے لیے اپنی کدمات پیش کی ہے، مارچ 2016 میں جاپان نے ہیروشیما میں پہلے یوتھ فورم کا انعقاد کیا، جس میں یوتھ کامیونیکیٹروں نے اپنے تجربات اشتراک کیا اور خیالات کا تبادلہ کیا۔
ترک اسلحہ کے مسائل پر اقوام متحدہ کی کانفرنس ( یو این سی ڈی آئی ) 1989 سے اب تک تقریباً ہر سال جاپان کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتی چلی آرہی ہے، جن میں سرکاری افسران اور دنیا بھر کےماہرین کے جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے تعلق سے مختلف طریقوں کے بارے میں بات چیت کرتے ہیں۔ یو این سی ڈی آئی کو اقوام متحدہ کے علاقائی مرکز برائے ایشیاء اور پیسفک میں امن اور ترک اسلحہ کے ادارہ یو این آر سی پی ڈی) ) اور حکومت جاپان کے ذریعہ مشترکہ طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔
اگست 2015 میں ہیروشیما میں منعقدہ 25 ویں یو این سی ڈی آئی کے موقع پر، شرکاء نے 2015 کی این پی ٹی جائزاتی کانفرنس، جوہری ہتھیاروں کے انسانی بنیاد پر عواقب، جوہری اسلحہ سے پاک علاقہ اور شہری معاشرے کے کردار کے جائزہ پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس کانفرنس کے نتیجہ میں جوہری توانائی سے پاک دنیا کے ایک عالمی احساس میں ایک نئی جان ڈالنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
جاپان کی وزارت برائے امور خارجہ کے ترک اسلحہ، عدم پھیلاؤ اور محکمہ سائنس کے ڈائریکٹر جنرل، کازوٹوشی آئیکاوا نے ناگاساکی بین الاقوامی کانفرنس کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘ہر ایک ذیلی نشست میں جوہری پابندی کے معاہدہ کا مسئلہ اٹھایا گیا، جس سے بین الاقوامی سوسائٹی میں اس مسئلہ سے نمٹنے میں حائل مشکلات کو ظاہر ہوتی ہے۔ اس کانفرنس نے ہمیں اگلے سال منعقد ہونے والی این پی ٹی کی ابتدائی کمیٹی کے لیے تیاری کرنےکا ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے۔’’
اس سے قبل، ابتدائی کلمات پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ نمائندہ برائے امور ترک اسلحہ کیم ون- سو نے کہا کہ : ‘‘ امسال . . جنرل اسمبلی کی سب سے پہلی قراداد کی سترہویں سالانہ تقریب منائی گئی۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ اس قراداد میں بشمول جوہری ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے تمام ہتھیاروں یعنی انسانی وجود کے لیے خطرہ پیدا کرنے والے ہتھیاروں کے خاتمہ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے ستر سال بعد، ہم اب بھی اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکے۔ اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے خاتمہ کی ہماری کوششیں کمزور ہو گئی ہیں۔’’
یوتھ فورم نے تمام حکومتوں سے اس بات کا پُرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ‘‘جوہری عدم پھیلاؤ اور ترک اسلحہ کے سلسلہ میں اپنے عہد، بالخصوص جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ ( این پی ٹی) میں صراحت کردہ اپنے وعدوں کی ‘‘مکمل طور پر از سر نو توثیق کریں’’ اور جوہری ترک اسلحہ میں تیزی لانے کے لیے بین الاقوامی قانونی فریم ورک بشمول این پی ٹی کے نفاذ کی بہتری اور ایک قانونی طور پر واجب التعمیل جوہری ہتھیاروں کے امتناع کے معاہدہ کے مذاکرات میں بہتری لائے۔
اس اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘جوہری ہتھیار رکھنے والے تمام ممالک کو چاہیے کہ جوہری ہتھیاروں کو اپنے پاس رکھنے کی ضرورت پر سلامتی، سیاسی اور معاشی نقطہ نظر سے از سر نو غور کریں، اور قومی سلامتی اور بین الاقوامی وقار کو برقرار رکھنے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کریں، اور اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، اس طرح این پی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کریں۔’’
اس اعلامیہ میں این پی ٹی میں غیر شامل جوہری اسلحہ والے ممالک کو اس معاہدہ میں شمولیت اختیار کرنے اور جوہری اسلحہ رکھنے والے کم از کم ایک ملک سے جوہری اسلحہ سے پاک دنیا کی کوششوں میں شمولیت اختیار کر کے اپنے جوہری پروگرموں کو موقوف کرتے ہوئے ایک مثال قائم کرنے کا پُر زور مطالبہ کیا گیا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ‘‘جوہری ہتھیاروں کی تجدید روک دی جائے، کیونکہ اس سے عالمی سلامتی میں استحکام پیدا نہیں ہوگا’’ اعلامیہ میں آگے کہا گیا ہے کہ ‘‘تمام جنگی مزائیلوں کو ہیر ٹرگر چوکسی والی حالت سے نکالا جائے، کیونکہ اس سے دنیا کے وجود کو غیر ضروری جوکھم اور خطرات پیدا ہوتے ہیں، اور اس سے ان ہتھیاروں کے حادثاتی لانچ ہونے کے خطرہ کا تدارک ہوگا۔’’
اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘‘جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کو چاہیے کہ وہ جوہری حادثات کو روکنے کے لیے تجربہ کار عملہ کو جوہری اسلحہ کی نگرانی کے لیے بھیجنے کے ذریعہ ان محفوظ رکھیں اور ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیے جا سکنے والے مواد کو ان تک رسائی اور انہیں حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں جیسا کہ دہشت گردوں کی پہنچ سے دور رکھے۔’’
جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ممالک بشمول وہ ممالک جو ‘‘ جوہری چھتری’’ کے ماتحت ہیں، وہ غیر جوہری ملک بنے رہنے کے اپنے عہد کے پابند رہیں اور جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے حصول میں ایک قائدانہ کردار ادا کرے۔
‘‘جوہری چھتری’’ کے ماتحت ممالک کوچاہیے کہ وہ اپنی پالیسی کو خصوصاً خطرات، اثر انگیزی، اعتمادیت کے پیش نظر رد کریں، اور ایک ایسی حفاظتی سکیم ، بشمول جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ کے قیام کی تیاری کے سلسلے میں کوشش کرے، جس کا انحصار جوہری ہتھیاروں پر نہ ہو۔
اس فورم نے جوہری ہتھیار نہ رکھنے والے ممالک سے جوہری ہتھیاروں سے پاک ریاست کی تعمیر کے حصول کے لیے ایک متحدہ کوشش کرنے کا مطالبہ کیا ہے، خصوصاً جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک پر اپنے ترک اسلحہ کی کوششوں میں اضافہ کے ذریعہ اور جوہری ہتھیاروں کے امتناع والے معاہدہ کی حمایت کرنے اور ایسی کوششوں کو پھیلانے کے ذریعہ جن میں بین لااقوامی کمیونٹی، بشمول جوہری ہتھیاروں والے ممالک مجموعی طور پر شامل ہوں۔
کامیونیکیٹرز فورم کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے، ناگاساکی میں جوہری بمباری کے نتیجہ میں اپنے والدین کو گنوانے والے 83 سالہ ہیروسایو ٹاگاوا نے کہا کہ ‘‘ ہباکوشا کے طور پر اپنے احساسات کا اظہار کرنے کے لیے میرے پاس ایک محدود وقت ہے’’ میں آج نوجوانوں کے خیالات سے بے حد متاثر ہوں۔ مجھے ان کی سرگرمیوں کے تعلق سے کافی اُمید ہے۔’’
ناگا ساکی کے میئر ٹومی ہیساٹاؤ نے کہا کہ آٹمی بمباری کے بعد بچ نکلنے والے لوگوں کی اوسط عمر اب 80 سال سے زائد ہے۔ اس بات کے پیش نظر، مخالف جوہری ہتھیار کے پیغام کو ترقی دینے کے لیے بمباری کے بعد بچ نکلنے والے لوگوں کے علاوہ بھی دیگر نئے طریقے تلاش کرنا بے حد ضروری ہے۔
ہباکوشا نے یہ استدلال پیش کرتے ہوئے جوہری پابندی کے لیے ایک عالمی اپیل کا جاری کی ہے کہ ‘‘ زمین پر آنے والی اگلی نسلوں کو زمین پر جہنم ہونے کا احساس نہ ہونے کے لیے ہم اپنی زندگی میں ہی جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس اُمید کے ساتھ جوہری ہتھیاروں پر پابندی اور ان کے خاتمہ کے لیے ایک دستخطی مہم کا آغاز کیا ہے، کہ جس طرح سے وہ آیٹمی بمباری کے نتیجہ میں متاثر ہوئے ہیں، کوئی اور اس طرح متاثر نہ ہو۔
وہ اس جوہری اسلحہ پر پابندی کے معاہدہ کے اختتام تک دستخط کے حصول کو جاری رکھنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اگست اور ستمبر 2016 کے مہینے میں جمع کردہ 564,240 دستخطوں کی پہلی کھیپ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی غیر ترکہ اسلحہ کمیٹی کے صدر نشین کے پاس جمع کی گئی ہے۔ (دورہ کریں: https://www.change.org/p/join-the-hibakusha-appeal-for-a-nuclear-ban-treaty) [آئی ڈی این-اِن ڈیپٹ نیوز – 24 دسمبر 2016]
متعلقہ مضمون: ‘جنریشن آف چینج کی طرف سے جوہری خاتمہ پر بات چیت پر عمل کی درخواست
تصویر یو این آر سی پی ڈی
آئی ڈی این انٹرنیشنل پریس سنڈیکیٹ کا ایک اہم ادارہ ہے.